مولانا
حبیب الرحمن
اعظمی
آدمی پردہٴ نیست سے باہر آکر منصہ شہود پر جلوہ آرا ہوتا ہے اور اپنی میعاد پوری کرکے عدم آباد کو سدھار جاتا ہے، آنے جانے کا یہ غیرمنقطع سلسلہ خداجانے کب تک جاری رہے گا، اسی سلسلۂ آمد ورفت پر اس جہانِ آب وگِل کی ساری آب وتاب منحصر ہے؛ چنانچہ ایک فلسفی شاعر کہتا ہے:
خدا
جانے یہ دنیا
جلوہ گاہِ ناز
ہے کس کی ٭ ہزاروں
اٹھ گئے رونق
وہی باقی ہے
مجلس کی
اس
لیے اس عالمِ
بے ثبات میں
کسی کا ورود، یا
یہاں سے کسی کی
رحلت، کوئی غیرمعمولی
واقعہ نہیں ہے
کہ کسی کی پیدائش
پر مسرت
وشادمانی کے گیت
گائے جائیں
اورکسی کی
وفات پر نالہ
وشیون کا
بازار گرم کیا
جائے؛ بل کہ
اس جہانِ کون
وفساد کی یہی
ریت اور یہی
عادت جاریہ
ہے، جو بجائے
خود کسی خاص
اہمیت کی حامل
نہیں ہے۔ بایں
ہمہ اس حقیقت
سے بھی انکار
نہیں کیا
جاسکتا ہے کہ
بعض شخصیتیں
اپنے محاسن
وکمالات اور
وسیع تر افادہ
اور فیض رسانیوں
کی بناء پر جب
اس دنیا سے
کوچ کرجاتی ہیں،
تو ایک عالم
اسے اپنی
محرومی تصور
کرتا ہے اور
اسے ایسا لگتا
ہے کہ اس کے
ہاتھوں سے اس
کا گنجِ گراں مایہ
چھین لیاگیا
ہے، جس پر
حرمان ویاس
اور رنج والم
کا ہونا ایک
فطری امر ہے۔
ہمارے
حضرت مفتی ظفیرالدین
مفتاحی رحمہ
اللہ بھی انھیں
مفید ونفع بخش
شخصیتوں میں
تھے، وہ ایک
عالم، مفتی،
مصنف، مدرس،
مربی اور نیک
دل انسان تھے،
تعلیم وتربیت
اور اسلامی
علوم وثقافت کی
تشہیر وترویج
ان کی زندگی
کا مشغلہ تھا،
نہ جانے کتنوں
کو انھوں نے
اپنی بے لوث
اور شفقت آمیز
تربیت سے کارآمد
انسان بنادیا،
وہ انتہائی
نرم خو، متحمل
مزاج اور سادگی
پسند تھے، نرم
روی اور سادگی
ان کی زندگی میں
اس طرح رچ بس
گئی تھی کہ ان
کے لباس،
خوردونوش،
رفتار
وگفتار، رہن سہن
حتی کہ ان کی
تحریروں میں
بھی اس کی
جھلک نمایاں
تھی، شدید سے
شدید تر جذباتی
ماحول میں بھی
ان کی متانت
وسنجیدگی اور
لہجے کی لطافت
میں فرق نہیں
آتا تھا، ان
کی قناعت پسند
اور کفایت
شعار طبیعت نے
انھیں بے تاج
کا بادشاہ
بنادیاتھا،اس
لیے انھوں نے
امراء اور سرمایہ
داروں کی طرف
کبھی نظر
اٹھاکر نہیں دیکھا
اور ایسی فارغ
البالی اور آسودہ
حال زندگی
گزارگئے جس پر
جتنا رشک کیا
جائے کم ہے۔
دارالعلوم
دیوبند میں
انھوں نے اپنی
زندگی کے ترپن
سال گزارے، جس
کے آخر کے تیس
سال خود بندہ
کی نظروں کے
سامنے بسر
ہوئے، اپنے
مشاہدہ اور
ذاتی تجربہ کی
بنیاد پر اپنا
خیال تو یہی
ہے کہ اس طویل
مدت میں ان کی
ذات سے کسی کو
کوئی آزار نہیں
پہنچا ہوگا،
انھوں نے اپنی
معاشرت کا جو
منہج اختیار کیاتھا،
اس میں اس کی
گنجائش بھی نہیں
تھی۔
افسوس
کہ ہم ۲۵؍ربیع
الثانی ۱۴۳۲ھ
- ۳۱؍مارچ
۲۰۱۱ء
بروز
پنجشنبہ ایک
نمونہ کے
انسان سے
محروم ہوگئے۔
خدا
بخشے بڑی ہی
خوبیاں تھیں
جانے والے میں
مرحوم
کے تلمیذ رشید
مولانا اشتیاق
احمد استاذ
دارالعلوم دیوبند
نے ان کا جو
سوانحی خاکہ
مرتب کیا ہے ذیل
میں اسے
ملاحظہ کیجیے:
سوانحی
خاکہ
نام:
حضرت
مولانا مفتی
محمد ظفیرالدین
مفتاحیؔ ابن
جناب محمد شمس
الدین صاحبؒ
ولادت:
۷؍مارچ
۱۹۲۶ء
مطابق ۲۱؍شعبان
۱۳۴۴ھ
وطن:
پورہ،
دربھنگہ
(بہار)
تعلیم
گاہ: گائوں
کا مکتب؛
مدرسہ محمودیہ
راج پور، نیپال؛
مفتاح العلوم
مئو؛ ندوۃ
العلماء
لکھنؤ۔
فضیلت
ودستار: ۱۹۴۴ء میں
مفتاح العلوم
مئو سے فارغ
ہوئے، حضرت
مولانا
فخرالدین
صاحب شیخ الحدیث
دارالعلوم دیوبند
نے سرپر دستار
باندھا۔
اساتذہ: میاں
جی محمد یوسفؒ،
حافظ محمد میاں،
مولانا
عبدالرحمن
صاحبؒ (چچازاد
بھائی) محدثِ
کبیر مولانا
حبیب الرحمن
اعظمیؒ،
مولانا
عبداللطیف
نعمانیؒ،
مولانا محمد یحییٰ
اعظمیؒ،
مولانا شمس
الدین مئویؒ،
مولانا حلیم
عطا شاہؒ،
مولانا محمد
ناظم ندوی،
مولانا محمد
اسحاق سندیلویؒ،
مولانا حمیدالدینؒ،
مولانا شاہ
محمد حبیب،
مولانا طیبؒ،
مولانا نظیرؒ،
مولانا سید
محمد علیؒ ۔۔۔۔
وغیرہ۔
تدریس:
مدرسہ وارث
العلوم
چھپرہ؛ مفتاح
العلوم مئو؛
مدرسہ معدن
العلوم
نگرام؛ مدرسہ
معینیہ سانحہ
بیگوسرائے؛
مدرسہ تعلیم
الدین ڈھابیل،
گجرات؛
دارالعلوم دیوبند۔
احسان
وسلوک: حضرت
تھانویؒ
(مراسلاتی)، سیدسلیمان
ندویؒ، شیخ
الاسلام حضرت
مولانا حسین
احمد مدنیؒ،
حکیم الاسلام
حضرت مولانا
قاری محمدطیبؒ۔
اجازت
وخلافت: حکیم
الاسلام قاری
محمد طیبؒ،
مولانا فضل
اللہ صاحبؒ
(مولانا محمد
علی مونگیریؒ
کے پوتے)
خدمات:
(۱)شعبۂ
تصنیف و تالیف
میں ۱۳۷۶ھ
میں آٹھ ماہ
رہے، ایک کتاب
بہ نام:
’’جماعتِ
اسلامی کے دینی
رجحانات‘‘
تصنیف فرمائی۔
(۲) اس
کے بعد
دارالافتاء میں
بحیثیت
’’مرتب فتاویٰ‘‘
رہ کر بارہ
جلدوں میں
’’فتاویٰ
دارالعلوم‘‘ مرتب
فرمایا، تین
ماہ بعد
’’نائب مفتی‘‘
کا عہدہ بھی
تفویض ہوگیا۔
(۳) ۱۳۸۳ھ
میں ’’مرتب
کتب خانہ‘‘ کی
حیثیت سے کتب
خانہ ترتیب دیا۔
(۴) ۱۳۸۴ھ
میں شعبہ
’’مطالعہ
علوم قرآنی‘‘
اور ’’مطالعہ
تصانیفِ
نانوتویؒ‘‘ کی
نگرانی آپ کے
سپرد ہوئی۔
(۵) ۱۳۸۵ھ
سے ۱۴۰۲ھ
تک باضابطہ
’’رسالہ
دارالعلوم‘‘
کا اداریہ
لکھا۔
(۶) عربی
ماہ نامہ
’’الداعی‘‘ کی
نگراں کمیٹی میں
بھی شریک رہے۔
(۷) ’’محکمہ
دارالقضائ‘‘
قائم ہوا، اس
کی بھی نگرانی
فرمائی۔
(۸) ’’مخطوطات
کا تعارف‘‘ دو
جلدوں میں
مرتب فرمایا۔
(۹) ندوۃ
العلماء
لکھنؤ کے
مخطوطات کا
تعارف بھی تحریر
فرمایا۔
(۱۰) مسلم
پرسنل لاء کی
طرف سے ترتیب
دیے جانے والے
‘‘مجموعۂ
قوانینِ
اسلامی’’ کی تیاری
میں شریک رہے۔
(۱۱) تقریباً
تیس (۳۰) سال
تک
دارالافتاء میں
رہے اورایک
لاکھ کے قریب
فتاویٰ تحریر
فرمائے۔
تصانیف: (۱) فتاویٰ
دارالعلوم دیوبند
(۱۲جلدیں)
(۲) اسلام
کا نظامِ
مساجد (۳) نظامِ
عفت وعصمت (۴) نظامِ
امن (۵) نظام
تعلیم وتربیت
(۶) نظام
تعمیرِ سیرت (۷) اسلامی
حکومت کے نقش
ونگار (۸) تذکرہ
مولانا
عبداللطیف
نعمانیؒ (۹) تذکرہ
مولانا
عبدالرشید
رانی ساگریؒ (۱۰) دینی
جدوجہد کا
روشن باب:
امارتِ شرعیہ
(۱۱) حکیم
الاسلامؒ اور
ان کی مجالس (۱۲) تعارف
مخطوطات کتب
خانہ
دارالعلوم دیوبند
(دوجلدیں) (۱۳) تعارف
مخطوطات ندوۃ
العلماء
لکھنؤ (۱۴) مشاہیر
علمائے دیوبند
(۱۵) دارالعلوم
کا قیام اور
اس کا پس منظر (۱۶) حیات
مولانا گیلانیؒ
(۱۷) اسلامی
نظامِ معیشت (۱۸) تاریخ
المساجد (۱۹) جماعتِ
اسلامی کے دینی
رجحانات (۲۰) جرم
وسزا کتاب
وسنت کی روشنی
میں (۲۱) اسوئہ
حسنہ (مصائب
سرکار دوعالم ﷺ)
(۲۲) زندگی
کا علمی سفر (۲۳) ترجمہ
درمختار
(تاکتاب
الطلاق) (۲۴)درسِ
قرآن (۲۵) مسائلِ
حج وعمرہ (۲۶) تاریخی
حقائق (۲۷) مشاہیر
علمائے ہند کے
علمی مراسلے (۲۸) حضرت
نانوتویؒ ایک
مثالی شخصیت (۲۹) نسل
کُشی (۳۰) امارتِ
شرعیہ: دینی
جدوجہد کا
روشن باب (۳۱) تفسیر
حل القرآن پر
عنوانات کا
اضافہ۔
ان کے علاوہ سیکڑوں مقالات ومضامین ہیں جو علمی ودستاویزی رسالوں میں شائع ہوئے۔
---------------------------------------
دارالعلوم
، شماره 5، جلد: 95 جمادی
الثانیہ 1432 ہجری
مطابق مئی 2011 ء